زندگی تو بس یہ ہے کہ انسان متحرک ہو‘ ہر شعبہ زندگی میں ایک روح رواں ہو اور ہر فعل و عمل میں شعلہ جواں ہو اور مہ تاباں ہو۔ اچھا انسان وہی ہے کہ جو حرکت میں رہے اور حیات کی ساری برکت حاصل کرلے… برکت حرکت کرنے والے کی ملکیت ہے۔
’’حرکت میں برکت ہے‘‘ مجھے نہیں معلوم یہ مقولہ کس کا ہے‘ گھر میں میںنے یہ بات اپنے بالکل بچپن سے اپنی والدہ سے سنی ہے۔ وہ اپنی عمر کے بہتر سال تک یہ مقولہ دُہراتی رہیں اور میں اب پچاس سال تک اس مقولے پر عمل کرتا رہا ہوں اور اس کی معنویت کی داد دیتا رہا ہوں۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک انسان کیلئے جو اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کا عزم رکھتا ہو اور جو دنیا میں ایک مفید انسان بننا چاہتا ہو اور جو صحت مند اور کارآمد زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہو‘ اس سے بہتر کوئی مقولہ ہوسکتا ہے۔ اتنا پڑھنے کے بعد اور اتنا سمجھنے کے بعد آپ انتہائی سکون و غرق کے ساتھ غور کیجئے کہ کیا حرکت کے بغیر آپ کوئی بھی کام کرسکتے ہیں؟
جسم انسانی ایک ایسی حیاتیاتی مشین ہے کہ جس میں تبدل و تعمیر کا سلسلہ ابتدائے حیات سے انتہائے حیات تک جاری رہتا ہے۔ مختصراً یہ جسم خلیات (سیلز) کا مرکب ہے اور یہ خلیات مرتے گھلتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیات لیتے رہتے ہیں اور حیات و صحت میں جاری رہ سکتا ہے کہ جسم میں حرکت ہو کیونکہ حرکت ہی وہ شے ہے جو پرانے خلیوں کو ختم کرتی ہے اور نئے خلیے ان کی جگہ لیتے ہیں جسم پھر تازہ ہوجاتا ہے اگر حرکت نہ ہو اور انسان سستی کا پلندہ ہوکر پڑا رہے تو فطری عمل سست ہوجائے گا اور صحت و تازگی نہیں آئے گی… بڑھاپا آئے گا!
ایک موٹر کار کو مثال بنانا چاہیے۔ اس میں انسان جیسے سارے ہی تو کل پرزے موجود ہیں اس موٹرکی غذا پٹرول ہے یا ڈیزل ہے۔ موٹر کو یہ غذا ملتی ہے‘ وہ چلتی ہے۔ یہ غذا نہ دیجئے‘ موٹر چلنی بند ہوجائے گی۔ موٹر کو کھڑا رکھیے‘ حرکت نہ دیجئے۔ اس کے کل پرزوں کو زنگ لگ جائے گا تار تُور گل کر رہ جائیں گے۔ ایسی موٹر سستی کا پلندہ ہوگی۔ اب سستی کے اس پلندے کیلئے پیٹ یعنی ٹینک میں پٹرول یا ڈیزل ڈالے جائیں گے تو اس کا انجام آپ خوب جانتے ہیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک انسان سستی کا پلندہ بنا بیٹھا ہے اور کھاتے چلا جارہا ہے تو اس کا انجام ایک دن آخر کیا ہوگا؟
بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے
زندگی تو بس یہ ہے کہ انسان متحرک ہو‘ ہر شعبہ زندگی میں ایک روح رواں ہو اور ہر فعل و عمل میں شعلہ جواں ہو اور مہ تاباں ہو۔ اچھا انسان وہی ہے کہ جو حرکت میں رہے اور حیات کی ساری برکت حاصل کرلے… برکت حرکت کرنے والے کی ملکیت ہے۔
اپنی ہر صبح کا آغاز حرکت سے کیجئے۔ ورزش کیجئے‘ ٹہلنا، دوڑ لگانا، تیرنا، گھڑسواری‘ کھیلنا وغیرہ سب ورزش ہے۔ حیات و صحت کیلئے ورزش ضروری ہے۔ آج کی مصروف زندگی نے انسان کو اس قدر مشکل میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ اپنی حیات و صحت سے بھی غافل ہوگیا ہے۔ غفلت کی یہ بڑی عجیب قسم ہے مگر یہ غفلت بڑی خطرناک ہے۔ ہمیں جاگنا چاہیے‘ حرکت میں آنا چاہیے۔ بے شک حیات و صحت پر آپ کا حق ہے مگر ایک پہلو اور بھی ہے جس پر آپ کو غور کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی صحت آپ کے ملک کیلئے بھی ضروری ہے۔ قوم و ملت کا ہر فرد اگر تندرست و توانا اور متحرک ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ پاکستان توانا و تندرست ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ صحت مند رہنا ایک حق بھی ہے اور آپ کا فرض بھی ہے۔ اس طرح نصب العین صحت ملی ٹھہرا۔ میری رائے میں اس سے زیادہ اچھا نصب العین دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔
’’حرکت میں برکت ہے‘‘ مقولے کے معنی اب بالکل واضح ہوگئے۔ لہٰذا اپنی ہر صبح کا آغاز آپ حرکت سے کیجئے۔ اگر آپ کے پاس اتنا زیادہ وقت نہیں ہے تو پھر آپ اپنے گھر ہی میں ورزش کیجئے۔ میں آپ کو صرف دس منٹ کی ورزشیں بتاتا ہوں۔ میں تو اپنی صحت کیلئے ٹینس بھی کھیلتا ہوں‘ دوڑتا ہوں اور حسب موقع ورزش بھی کرتا رہتا ہوں۔ مصروف تو میں بھی بہت ہوں مگر اپنی صحت کیلئے ورزش ضرور کرتا ہوں اور اس کی برکت سے مستفیض ہوتا ہوں۔
ورزش نمبر ۱:آپ دو کرسیاں لیں‘ کرسیوں سے تھوڑا پیچھے کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ کرسیوں پر رکھیے۔ اس کے بعد بازو موڑ کر نیچے گہرائی میں آہستہ آہستہ جائیے جہاں تک جاسکیں پھر سابق پوزیشن میں آجائیں۔ یہ ڈنٹر ہیں مگر بہت مفید۔ ڈنٹر اس طرح پیلیے‘ تھکنے پر ٹھہر جائیں۔ پھر شروع کریں‘ یہاں تک کہ تھک جائیں۔ یہ ایک بہترین ورزش ہے اسے تمام عمر ترک نہ کریں۔
ورزش نمبر ۲:خوب گہرے سانس لینے کی ورزش یہ ہے کہ سیدھے کھڑے ہوجائیں۔ ہاتھ اوپر لے جائیں اور لے جاتے ہوئے خوب گہرا سانس اندر لیجئے۔ اس کے بعد ہاتھ نیچے اس طرح لائیے کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں ہاتھ نیچے لاتے لاتے سانس باہر نکالیے اس طرح کہ گویا پھیپھڑوں میں اب ہوا بالکل باقی نہیں رہی ہے۔ اسی طرح چند منٹ کیجئے۔ اس سے پہلی ورزش کے بعد یہ ورزش بہت ضروری ہے۔ورزش نمبر ۳: یہ گویا اوپر سے نیچے خیالی رسی کو کھینچنا ہے۔ اس جیسے آپ ایک رسی کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور رسی کے ذریعے اوپر چڑھ رہے ہیں یا کوئی چیز نیچے کھینچ رہے ہیں۔ نیچے کا ہاتھ اوپر کے ہاتھ کو اوپر لے جائے اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ کو نیچے دبائے۔ اس زور کے ساتھ دونوں ہاتھ سرکے اوپر تک لے جائیے اور اسی کش مکش کے ساتھ نیچے ناف تک لے آئیے۔ بار بار اسی طرح ’’خیالی رسہ کشی‘‘ کیجئے۔ یہاں تک کہ بازو تھک جائیں۔
ورزش نمبر ۴: دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا لیجئے اس طرح کھینچتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو سر کے اوپر تک لے جائیے اور اسی طرح کھینچتے ہوئے نیچے ناف تک لائے۔ سینے کیلئے بہترین ورزش ہے۔ بار بار کیجئے‘ یہاں تک کہ تھک جائیں۔ورزش نمبر ۵: سیدھے کھڑے ہوجائیے‘ دونوں پیروں کے درمیان چوبیس انچ کا فاصلہ کرلیجئے۔ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ لیجئے۔ نیچے جھکنا شروع کیجئے‘ گھٹنے مڑنے نہ پائیں اور دایاں ہاتھ زمین کو چھوئے۔ اس کے بعد بائیں ہاتھ کو زمین تک لائیے اسی طرح باری باری کرتے رہیے۔ یہاں تک کہ تھک جائیں۔ پیٹ کیلئے بہترین ورزش ہے۔ جو نظام ہضم کو بالکل چست رکھتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں